Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

مچھلیوں پر حیرت انگیز تجربات (منصب علی، اسلام آباد)

ماہنامہ عبقری - فروری 2010ء

سائنس دان یوں تو ایک مدت سے مچھلیوں پر تجربات کر رہے تھے‘ تاہم سب سے پہلی تحریر جو اس ضمن میں سامنے آئی‘ پروفیسر جے۔ پی فرولوف کی تصنیف ”مچھلیاں جو ٹیلی فون سنتی ہیں“تھی۔ انہوں نے مچھلیوں کے حوض میں بجلی کے تاروں کا جال بچھایا اور حوض کے کنارے ایک ٹیلی فون سیٹ رکھ دیا جس کا رسیور پانی میں تھا۔ یہ ساراکام کچھ اس طرح کیا گیا کہ جونہی ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی‘ اس کی آواز پانی ہی میں سنائی دیتی۔ اس آواز کے ساتھ ہی بجلی کے تاروں میں خفیف سے برقی رو چھوڑ ی جاتی جس سے مچھلیوں کو جھٹکے محسوس ہوتے۔ مچھلیاں ان جھٹکوں سے بچنے کےلئے حوض کی بالائی سطح پر آ جاتیں۔ پروفیسر فرولوف نے چالیس بار یہ تجربہ کیا اور اکتالیسویں بار حوض کے تاروں میں بجلی چھوڑنے کی بجائے صرف گھنٹی بجائی۔ مچھلیاں یہ گھنٹی سن کر فوراً اوپر آ گئیں۔ اس کے بعد پروفیسر نے حوض کے اوپر بڑی سے گھنٹی لگوا دی اور ٹیلی فون کا رسیور بھی پانی سے نکال دیا۔ جونہی وہ گھنٹی بجاتا مچھلیاں تیر کر پانی کی بالائی سطح پر آ جاتیں ۔ حالانکہ اب نہ حوض کے تاروں میں بجلی کی رو تھی اور نہ رسیور پانی میں تھا۔ انہی تجربات کی مدد سے پروفیسر نے مچھلیوں کو مقررہ اوقات پر طعام گاہ میں جانے کی تربیت دی۔ طعام گاہ حوض کے ایک کونے میں بنائی گئی تھی اور گھنٹی بجتے ہی حوض کے باقی حصوں میں مچھلیوں کو برقی جھٹکے لگتے تھے۔ اپنی جان بچانے کےلئے انہیں اس خاص کونے میں جانا پڑتا جہاں ان کی من پسند خوراک موجود ہوتی۔ شروع میں برقی جھٹکے دیئے گئے۔ بعد میں مچھلیاں صرف گھنٹی کی آواز سن کر طعام گاہ کا رخ کرنے لگیں۔ امریکہ میں نیچرل ہسٹری سروے کے ماہر ڈاکٹر فرینک ۔ اے ۔ براﺅن نے مچھلیوں پر جو تجربات کئے وہ دلچسپی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان تجربات کا مقصد اس امر کا جائزہ لینا تھا کہ مچھلیاں مختلف رنگ دیکھ سکتی ہیں یا نہیں۔ یہ ثابت کرنا بھی آسان نہ تھا کہ مچھلیاں رنگوں کو ویسا ہی دیکھتی ہیں جیسے وہ ہیں یا رنگندھے آدمی (Color Blind Man) کی طرح انہیں بھی ہر رنگ بھورا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر براﺅن نے جن مچھلیوں پر تجربات کئے انہیں بلیک باس کہتے ہیں۔ یہ مچھلیاں امریکہ کے سواحل پر عام ملتی ہیں۔ مچھلیوں کو طیف سے نکلنے والے 28 مختلف رنگوں کی پہچان کرائی گئی۔ نتائج حسب ذیل تھے: مچھلیوں نے سب سے پہلے سرخ رنگ پہچانا ‘ پھر سبز نیلا اور زرد رنگ ‘ بھورے رنگ ہلکے شیڈز کے ساتھ خلط ملط ہو گیا اور مچھلیاں انہیں صاف طور پر پہچاننے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ڈاکٹر براﺅن نے ان تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ باس مچھلیوں کو بعینہ وہی رنگ نظر آتے ہیں جو کسی ایسے شخص کو دکھائی دیتے ہیں جس نے زرد شیشوں کی عینک لگا رکھی ہو۔ ایک واقعہ کلاک نے بیان کیا ہے وہ لکھتا ہے: میرے ایک جاگیر دار دوست کے تالاب میں بہت سی ٹراﺅٹ مچھلیاں تھیں‘ وہ روزانہ انہیں کھانے کو دیتا تھا۔ کسی کو ان کا شکار کرنے کی اجازت نہ تھی۔ جب کبھی وہ نہانے کےلئے تالاب میں اترتا ساری مچھلیاں اس کے گرد جمع ہو جاتیں اور اسے اپنے مخصوص انداز میں ”پیار“ کرنے لگتیں۔ ایک بار مجھے بھی اس کے ساتھ نہانے کا اتفاق ہوا۔ مچھلیوں نے میری موجودگی کا کچھ خیال نہ کیا اور پہلے کی طرح اپنے مالک کے دائیں بائیں جمع ہو گئیں۔ دوسری بار میں تجربے کی غرض سے ان کی من پسند خوراک لی اور تنہا تالاب میں اتر الیکن تین ساڑھے تین سو مچھلیوں میں سے کسی ایک نے بھی میری طرف توجہ نہ دی۔ وہ بخوبی جانتی تھیں ان کا اصل مالک کون ہے۔ مچھلیاں پالنے والوں میں فلوریڈا کے رال واسکوز کا نام سرفہرست ہے۔ اس شخص نے 280 فٹ لمبے اور 80 فٹ چوڑے حوض میں سے 70 سے زائد اقسام کی مچھلیاں جمع کر رکھی تھیں۔ اس نے اپنے حوض کا ذکر کرتے ہوئے کہا میں اپنی مچھلیوں کو کبھی پریشان نہیں کرتا۔ آج تک میں نے انہیں سزا نہیں دی ہمیشہ پیار سے سمجھایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں سزا کی نسبت پیار سے بہتر تعلیم دی جا سکتی ہے۔ وقت پر کھانے کو دیتا ہوں‘ خوراک ہمیشہ تازہ ہوتی ہے اور دن میں کئی بار انہیں پیار کرتا ہوں۔ اس مقصد کےلئے اپنا ہاتھ پانی میں ڈال دیتا ہوں‘ مچھلیاں آتی ہیں اور میرے ہاتھ کے گرد جمع ہو جاتی ہیں۔ ان کا نرم نرم لمس مجھے راحت بخشتا ہے۔ باراکوڈا بہت تند اور وحشی خصلت کی مچھلی سمجھی جاتی ہے‘ لیکن یقین جانیے میں نے اس مچھلی کو صرف تین دن میں ایسا مطیع کیا کہ وہ گھریلو بلی کی طرح نرم اور بے ضرر ہو گئی تھی۔ واسکوز سیٹی بجائے تو ساری مچھلیاں پانی کی بالائی سطح پر آجاتی ہیں‘ وہ خوراک پانی میں نہیں ڈالتا بلکہ ہاتھوں میں پکڑ کر کھڑا رہتا ہے۔ مچھلیاں پانی میں سے اچھلتی ہیں اور اس کے ہاتھ سے خوراک لے کر واپس چلی جاتی ہیں۔ حال ہی میں نیو فاﺅنڈ لینڈ کے ایک اخبار میں چھپا تھا کہ ایک شخص نے اپنی پالتو مچھلی پر بیوی کو قربان کر دیا۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک عورت نے عدالت سے اپنے خاوند کے خلاف تنسیخ نکاح کی درخواست کی۔ جج نے وجہ پوچھی وہ بولی: ہمارے گھر میں صرف ایک غسل خانہ ہے جو سارے کا سارا بڑے بڑے ٹبوں سے بھرا ہوا ہے جن میں مچھلیاں رہتی ہیں۔ میں نے بڑی مشکل سے کچھ رقم جمع کی اور صحن کے ایک حصے میں نیا غسل خانہ بنوایا لیکن میرے خاوند پر مچھلیوں کا عشق سوار ہے اس نے نئے غسل خانے میں بھی ایک بہت بڑی مچھلی رکھنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ کہتا ہے کیٹ فش کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے۔ ڈاکٹر ڈی۔ ای ڈبلیو نیچرل ہسٹری کے امریکی عجائب گھر میں مچھلیوں کی کتابیات کے ماہر ہیں۔ مچھلیوں پر آج تک جتنی کتابیں لکھی گئیں‘ مضمون پڑھے گئے تحقیقات ہوئیں انہیں سب کا علم ہے۔ ایک بار انہوں نے سائنسی تحقیقات کی کمیٹی میں ایک مقالہ پڑھا‘ عنوان تھا ”مچھلیوںمیں محبت اور قربانی کی مثالیں“ اس مقالے میں انہوں نے کئی واقعات بیان کئے۔جن میں سے دو یہ ہیں۔ایک شخص نے گھرکے تالاب میں بہت سی مچھلیاں پال رکھی تھیں۔ مچھلیوں کے علاوہ چند کچھوے بھی تھے۔ ایک روز وہ شخص تالاب کے کنارے کھڑا چھوٹی مچھلیوں کو خوراک دے رہا تھا کہ اچانک ایک کچھوا آیا اور چھوٹی مچھلی کے سامنے تیرتا ہوا کیڑا چٹ کرنے کی کوشش کرنے لگا ایک بڑی مچھلی قریب ہی تھی وہ جھپٹی اور کچھوے اور چھوٹی مچھلی کے درمیان آ گئی۔ چھوٹی مچھلی نے اطمینان سے کیڑا کھایا اور پھر بڑی مچھلی کے پیٹ کے ساتھ چمٹ گئی ۔ کچھوا غصے میں اس کی طرف بڑھا لیکن بڑی مچھلی نے پانی کے اتنے چھینٹے اڑائے کہ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ اب بڑی مچھلی نے اس کونے کا رخ کیا جہاں بہت سی چھوٹی مچھلیاں تیر رہی تھیں‘ اپنی سواری وہاں اتاری اور واپس چلی گئی۔ اگر وہ چھوٹی مچھلی کی مدد کو نہ آتی تو کچھوا نہ صرف کیڑا ہڑپ کر جاتا بلکہ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتا۔ دوسرا واقعہ دو سلمن مچھلیوں کا ہے۔ ہیوٹ لکھتا ہے ایک بار وہ چھوٹی کشتی پر ماہی گیروں کے ساتھ شکار کھیلنے گیا۔ اس نے کانٹے اور ڈوری کی مدد سے ایک سلمن مچھلی پکڑی لیکن اوپر کھینچے کی بجائے اسے پانی میں کھلاتا رہا۔ اس نے دیکھا شکار کے ساتھ ساتھ ایک دوسری سلمن مچھلی بھی آ رہی ہے۔ دوسری مچھلی بہت غصے میں تھی اور بار بار ڈوری پر حملہ کر رہی تھی تاکہ اس کی ہم جنس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر لے۔ آخر اس نے اچھل کر اس جگہ حملہ کیا جہاں پھنسی ہوئی مچھلی کا منہ تھا اور کانٹا پہلی مچھلی کے منہ سے نکل گیا۔ اگلے ہی لمحے دونوں مچھلیاں ”شانہ بشانہ “ تیرتی ہوئی تیزی سے ایک طرف کو چلی گئیں۔
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 317 reviews.